Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 17

تصببیہا جب گھر لوٹی تو سب سے پہلے اسے کال کی مگر اس نے نہیں اٹھائی ۔۔۔)

ہوسپیٹل میں بزی ہوگا ۔(وہ خود سے مخاطب تھی ۔)

میں تمہیں نہیں سمجھ سکتی موصب ،تم کب کیا کردو کچھ پتا نہیں ہوتا ۔بس جلدی سے میرے پاس آجاو ۔ (تصبیہا اس کہ عکس سے مخاطب تھی ۔)

دروازے پر نوک ہوا تو وہ اٹھی اور دروازہ کھولا تو سامنے موصب کی موم تھیں ۔)

موم آپ آیئے نا ۔(اس نے انھیں اندر بولا)

جب تم مجھے اتنے پیار سے موم بولتی ہونا تو بہت پیاری لگتی ہو ۔تمہارے آنے سے میری بیٹی کی کمی پوری ہوگئی ۔ (وہ تصبیہا کا ہاتھ پکڑ کر بولیں ۔)

یہ تو آپ کی محبت ہے موم ۔۔(تصبیہا نے مسکرکر کہا)

شام میں ریڈی رہنا ہم نور کہ گھر جارہے ہیں اوکے ۔۔(انھوں نے کہا)

جی بلکل ۔۔۔(تصبیہا نے تعبیداری سے ہاں کی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کو وہ تیار ہو کر نیچے اتری تو موصب کی موم نے پیار سے اسے گلے لگالیا ۔ وہ لوگ مل کر نور کہ گھر گئے ۔وہ واقع اچھی لڑکی تھی ۔سب کو بہت پسند آئی ۔ شاہ کو وہ لوگ جانتے تھے ۔کیوںکہ ایک ہی کالج میں تھے تو نور کہ گھر والے اس سے واقف تھے۔ وہ لوگ منگنی کی بات کررہے تھے جب تصبیہا بولی)

معزت چاہتی ہوں بیچ میں بولنے کہ لیے ،مگر ہم منگنی کی جگہ نکاح اگر کردیں تو کیسا رہے گا۔کیوں منگنی کی شریع کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ (اس نے اپنا موقف پیش کیا تو موصب کہ ڈیڈ کو اس کی بات بہت پسند آئی اور وہ نور کہ ڈیڈ کی طرف دیکھ کر بولے)

آپ کیا کہتے ہیں ؟ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے ؟
نہیں بلکل نہیں ۔ہمیں تصبیہا بیٹی کی بات واقع پسند آئی ۔ (نور کہ ڈیڈ بولے اور ان کی نکاح کی ڈیٹ دو دن بعد کی
فیکس ہوگئی ۔ تصبیہا نے نور کو کہدیا تھا کہ شاہ کو اس بارے میں پتا نہیں چلنا چاہیے ۔اور وہ مان گئی تھی۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصبیہا گھر آئی تو خوش بھی تھی مگر موصب کی کمی اسے بہت فیل ہورہی تھی ۔ اس نے موبائل چیک کیا مگر موصب کی ایک کال یا میسج نہیں تھا ۔ تصبیہا کو اس کی فکر ہونے لگی ۔اس نے کال کی مگر بیل جارہی تھی ۔ )

فون کیوں نہیں اٹھا رہا ۔۔(اس نے غصے سے کہا)

وہ موبائل رکھ کر چینج کرنے چلی گئی ۔واپس آئی تو موبائل دیکھا مگر کوئی کال نہیں تھی اس میں ۔اس نے پھر کال کی ۔ اس بار اس نے کال کاٹ دی ۔تصبیہا کا تو خون کھول گیا۔مگر اگلے لمحے میں اس کی ویڈیو کال آرہی تھی ۔تصبیہا نے اٹھائی اور شروع ہوگئی۔)

کہاں تھے تم ؟ میں کب سے کال کررہی ہوں ۔دوپہر میں بھی کی مگر تم ایک کال کا جواب نہیں دیا ۔۔۔کہاں تھے؟ (وہ غصے سے جو منہ میں آیا بولتی گئی)

موصب چپ چاپ اسے دیکھ رہا تھا ۔ دو دن بعد اسے دیکھا تھا ۔دل کیتنا بے چین ہورہا تھا کوئی اس سے پوچھتا ۔اسے چپ دیکھ کر وہ بولی )

اب بول کیوں نہیں رہے ۔۔۔۔

کیا بولوں ؟ تم نے کل بات کی تھی مجھ سے ۔۔(وہ شکوہ کرنے لگا ۔)

میں ساری رات تڑپتا رہا تم سے بات کرنے کہ لیے ،تمہیں دیکھنے کہ لیے ،مگر میڈم فون بند کر کہ آرام سے سو رہیں تھیں۔( وہ مصنوعی غصے سے بولا)

توبہ کیسے لڑاکا عورتوں کی طرح بول رہے ہو۔۔(تصبیہا نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا۔)

اچھا آپ کہ منہ سے تو ابھی پھول گر رہے تھے ۔۔(وہ تپا ہوا تھا)

میں غصے میں تھی ۔۔(وہ منہ بناکر بولی)

اب میں غسے میں ہوں ۔(وہ ترکی باترکی بولا)

شاہ کا رشتہ تے ہوگیا ہے ۔دو دن بعد نکاح ہے اس کا۔(تصبیہا اسے خبر دی )

پتا ہے مجھے ڈیڈ نے مجھے پہلے ہی بتادیا (وہ بولا)

تم مجھے ڈنتو گے؟ (تصبیہا نے اتنی معصومیت سے پوچھا موصب کا کیا ابھی وہ سامنے ہوتی تو منہ چوم لیتا )

نہیں میری کیا مجال کہ میں آپ کو ڈانتو۔۔۔(اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے وہ بولا)

تصبیہا تھوڑی دیر چپ رہی اور اسے دیکھتی رہی ۔تو اسے چپ دیکھ کروہ بولا)

کیا ہوا غصہ ختم ؟ (وہ ہلکا سا مسکرایہ )

تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ بابا کی طبیعت خراب تھی ؟۔(تصبیہا نے سنجیدگی سے پوچھا تو سمجھ گیا تھا کہ اسے سب پتا چل گیا ہے۔)

کوئی اور بات نہیں کرسکتے ۔(اس نے بات بدلنے کہ لیے کہا)

نہیں ۔۔(وہ بھی اپنی بات پہ قاہم تھی)

تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے نہیں بتایا ۔(اس نے سچ بولہی دیا)

اور یہی وجہ تھی مجھے اکیلا یہاں بھجنے کی ۔۔(اس نے تصدیق چاہی)

اس نے ہاں میں سر ہلایا اور بولا)

جب اندازہ نہیں کہ یہ اتنا مشکل ہوگا میرے لیے ۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ۔یہ میری ریکویسٹ ہے تم سے کہ تم جیتنا بھی مجھ سے ناراض ہو مگر مجھ سے بات کرنا نہیں چھوڑنا پلیززز(وہ تصبیہا سے ریکویسٹ کررہا تھا ۔اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کی وہ ایسی ریکویسٹ کبھی کسی سے کرے گا)

تم کب آرہے ہو؟ (تصبیہا نے بھیگی آنکھوں سے پوچھا)

مجھے مس کررہی ہو؟۔(اس نےشریر لہجے میں پوچھا )

بہت۔۔۔۔۔(آج تصبیہا نے آخر بولا ہی دیا)

اس کا جواب سن کر موصب کا دل کرا کہ ابھی اڑ کر چلاجائے مگر۔۔۔)

کچھ دن صبر کرلو ۔۔۔(اس نے اسے بھلانا چاہا تو تصبیہا نے نفی میں سر ہلادیا)

آئی لو یو ۔۔۔(اس نے فلائے کس کیا اور بولا) سو جاو کافی رات ہوگئ ہے ۔۔۔

تم بھی ۔۔۔(تصبیہا نے مسکرا کر کہا تو اس نے کال کٹ کردی )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج وہ صبح سے ہی موم کے ساتھ شاپنگ کررہی تھی ۔نور کہ لیے اور شاہ کہ لیے ۔۔۔ساری تیاریاں ہوچکیں تھیں مگر موصب اور شاہ نہیں پہنچے تھے۔ )

ایک دن بعد نکاح ہے اور دلہے کو پتا پہ نہیں ہے ۔(شاہ کی موم بولیں ۔وہ سب شام کی چائے پی رہے تھے ۔)

آجائے گا موصب اسے ٹائم پر بھیج دے گا ۔۔۔(موصب کہ ڈیڈ بولے)

کیسے بھیجنے کی بات ہوریئ ہے ۔۔۔(شاہ کہ آواز پر ان سب نے مڑکر دیکھا تو حیران رہ گئے ۔تصبیہا کی نظریں موصب کو ڈھنڈرہی تھیں ۔)

آرئے تم کیسے آئے ؟ (اس کی موم نے پوچھا)

بھائی کہا کہ گھر جانا ہے میں کہا یہ پوچھنے والی بات ہے ،تو انھوں نے اجازت دے دی ۔۔۔(شاہ نے بیٹھتے ہوئے بتایا )

تصبیہا کی نظر ابھی بھی مین گیٹ پر تھی کہ شاید وہ اب اندر آئے ۔ شاہ نے اسے دیکھا تو بولا)

آپی بھائی نہیں آئے ۔میں نے تو کہا تھا مگر وہ بولے ابھی تم چلے جاو میں بعد میں آجاو گا جب ٹائم ہوگا۔۔(شاہ نے اسے بتایا تو تصبیہا کا دل بوجھ گیا اور اسی کہ ساتھ اس کا چہرا بھی۔ وہ اداس ہوکر بیٹھ گئی ۔)

آجائے گا وہ اداس مت ہو ۔(موصب کی موم نے اس کی کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو مسکرا دی اور شاہ سے باتیں کرنے لگی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے کمرے میں آئی تو موصب کو کال ملائی مگر اس نے نہیں اٹھائی ۔9

ایک تو یہ بندہ کال نہیں اٹھاتا ۔۔۔کیا ہوجاتا اگر شاہ کہ ساتھ ہی آجاتا مگر نہیں جناب پر تو ڈاکڑی کا بھوت چڑا ہے ۔بیوی جائے بھاڑ میں ۔ میں بھی اب کال نہیں اٹھاوں گی ۔نہیں کروں گی بات ۔ (تصبیہا اس وقت فل غصے میں تھی۔موبائل اوف کر کہ جینج کرکہ صوفے پر سونے لیٹ گئی ۔وہ ابھی بھی صوفے پر ہی سوتی تھی جب سے یہاں آئی تھی ۔اس کی ہمت ہی نہیں ہوئی پہلے دن کی بےعزتی کہ بعد ۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کہ 2بجے کون آیا ہے ۔(موصب کی موم کچن میں کسی کام سے آہیں تو چوکیدار کو گیٹ کھولتے دیکھا تو بولیں ۔ گاڑی اندر آئی اور اس میں سے موصب نکلا تو وہ خوشی سے گیٹ پر گئی اور گیٹ کھولا تو وہ سامنے تھا ۔موصب نے سلام کیا۔ )

موصب تم تو کل آنے والے تھے ۔۔(وہ اسے اس وقت دیکھ کر حیران تھیں ۔)

جی ۔۔۔بس آگیا ۔۔(اسے ان سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی)

اچھا تم فریش ہوجاو میں کھانا لگادوں ۔(انھوں نے اس پوچھا )

نہیں میں بس آرام کروں گا آپ کو اتنی فکر کرنے کیضرورت نہیں ہے ۔(وہ کہہ کر آگے بڑھ گیا)

وہ موصب کوجاتے دیکھتی رہیں ۔وہ ان سے ایسے ہی بات کرتا تھا ہمیشہ سے ۔۔۔وہ سر جھٹک کر اندر چلی گئیں ۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصب کمرے میں آیا تو ہلکی سی لاہٹ جل رہی تھی اور تصبیہا صوفے پر سو رہی تھی ۔پہلے تو اسے صوفے پر دیکھ کر حیران ہوا پھر سر نفی میں ہلایا اور مسکرایہ ۔وہ بھی جانتا تھا وہ تصبیہا ہے اور اس سے کچھ بھی تواقع کی جاسکتی ہے ۔ موصب صوفے کہ قریب آیا نیچے بیٹھ گیا ۔نیچے بیٹھ کر تصبیہا کہ چہرے پر آئے بالوں کو ہٹانے لگا ۔وہ اس کہ ایک ایک نقش کو دیکھ رہا تھا ۔ پھر اس نے اس کہ گالوں کو چھوا تو تصبیہا کی آنکھ کھل گئی ۔ وہ نیند میں تھی اس نے موصب کو دیکھا اور بولی)

یار موصب تم مجھے پاگل کردو گے ۔آنکھیں کھولو تو تم ہو ،بند کروں تو تم نظر آتے ہو ۔۔۔۔ (وہ سمجھی اس کہ سامنے موصب کا عکس ہے ۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی)

موصب مسکرایہ اور اس کہ بالوں میں انگیاں چلتا ہوا اس کہ چہرے پر جھکا تو تصبیہا کی آنکھیں پھیل گئیں ۔اس نے چہرا اٹھایا تو تصبیہا کو حیران پایا ۔۔۔)

موصب ؟؟؟؟؟ (وہ بے یقینی سے بولی تو موصب نے ایک آنکھ دبا دی ۔تصبیہا خوشی سے اس کہ گلے لگ گئی ۔ وہ بھول گئی تھی کہ وہ موصب سے ناراض تھی۔)

تم کب آئے ؟ (تصبیہا نے پوچھا تو موصب نے اپنے ہاتھوں میں اس کا چہرا لے لیا اور بولا)

ابھی آیا ہو۔۔( اس کی نظریں تصبیہا کہ چہرے سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں ۔ تصبیہا مسکرائی تو وہ بولا)

بہت بھوک لگ رہی ہے ۔ (وہ معصوم بچے کی طرح بولا)

تم فریش ہوجاو میں کھانا لگاتی ہوں ۔(وہ کہتے ہوئے اٹھ کر باہر چلی گئی)

موصب فریش ہوکر نیچے کچن میں ہی آگیا اس کہ پاس اور کرسی گھسٹ کر بیٹھ گیا ۔۔۔)

ہاں جی ۔کیا کیا تم آج ؟ (اس تصبیہا سے پوچھا )

شوپنگ کی نور کی اور شاہ کی ۔۔۔(اس نے بتایا)

اور اپنی ؟ (اس نے تصبیہا سے پوچھا)

نہیں ۔وہ تو تم کرواوں گے ناں ۔۔۔(اس نے ہنستے ہوئے کہا تو مؤصب بھی ہنسنے لگا)

   1
0 Comments